MADRASA FAIZUL OLOOM

تعارف مدرسہ / About Madrasa

فیض العلوم کا تعارف  تاریخ کے آئینے میں:

     ۱۴؍اگست ۱۹۵۲ء: حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے مدرسہ فیض العلوم کا افتتاح کیا۔

        ۱۸ءاپریل ۱۹۵۵ء: ٹاٹا آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی نے فیض العلوم کے لیے زمین الاٹ کیا۔

        ۱۵؍فروری ۱۹۵۷ء: حافظ ملت اور دیگر علمائے اہل سنت کے مقدس ہاتھوں سے دومنزلہ عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔

        ۱۹۶۰ء: ایک منزل مکمل ہوجانے کے بعد فیض العلوم کی درسگاہ اپنی ذاتی عمارت میں منتقل ہوگئی۔

        یکم جنوری۱۹۷۰ء: فیض العلوم اردو مڈل اسکول کا قیام عمل میں آیا۔

        ۹؍مارچ ۱۹۷۰ء:  ٹاٹا اسٹیل کمپنی سے ہوسٹل بلڈنگ کے لیے زمین حاصل کی گئی۔

        ۱۹۷۲ء: علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے ’’انجمن فیضان ملت ‘‘کے نام سے طلبہ کی ایک انجمن قائم کی جس کے تحت آج ہزاروں کتابوں پر مشتمل ایک عظیم لائبریری موجود ہے اور جس کے زیر اہتمام ہر سال ۱۲؍ربیع النور کےپر بہار موقع پر نہایت ہی کروفر اور تزک واحتشام کے ساتھ جلسہ و جلوس کی شکل میں نبیٔ کونین ﷺ کی یادگار منائی جاتی ہے۔

        ۱۹۷۳ء: مدرسہ فیض العلوم کی عمارت  کی دوسری منزل پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

     اپریل ۱۹۷۴ء: حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے ہوسٹل کی دو منزلہ عمارت کی بنیاد رکھی۔

        ۱۹۷۷ء: ہوسٹل بلڈنگ کی ایک منزل مکمل ہوگئی۔

        ۲۱؍فروری ۱۹۹۷ء: حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے فیض العلوم مکہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔

        ۲۱؍جنوری ۲۰۰۳ء: فیض العلوم کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا۔

        ۲۰۰۷ء: دومنزلہ وسیع عریض دار الاقامہ کی تعمیر مکمل ہوئی۔

        ۲۰۰۸ء: دومنزلہ مطبخ کی تعمیر مکمل ہوئی۔

        ۲۰۰۹ء:  تین منزلہ جدید ہوسٹل بلڈنگ کی تعمیر مکمل ہوئی۔

 
 

خدمات اور کارنامے:

(۱) فیض العلوم  نے۱۹۵۲ء؁ سے اب تک پانچ ہزار سے زائد ایسے علماء،حفاظ ،قراء،خطباء اور اصحاب قلم پیدا کیے جو آج ملک کی معیاری درسگاہوں ،مسجدوں ،اداروں اور تبلیغی مرکزوں میں دین متین کی عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں۔

(۲) فیض العلوم کے شعبہ عصری علوم سے چھہ ہزار طلبہ فارغ ہوئے جن میں سے سینکڑوں طلبہ ہائی اسکولوں میں بحال ہوئے یا کالجوں میں داخلہ لیکر ڈاکٹری،انجنیرنگ اور علم و فن کی مختلف شاخوں میں کامیابی حاصل کی۔

(۳) فیض العلوم کےکمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ سے نوجوانوں کے کئی دستے تربیت حاصل کرکے صنعت وحرفت کے مختلف میدانوں میں آج خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

(۴) فیض العلوم نے اپنی درجنوں شاخوں کے ذریعہ مشرقی ہند کے مختلف علاقوں میں لاکھوں افراد تک دین کی روشنی پہونچائی اور ہزاروں بچوں کو علم دین کی راہ پر لگایا۔سینکڑوں آبادیوں میں اسلام کے فروغ و ترقی کا کام کیا  اور مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے فیض العلوم ایک عظیم مرکز کی حیثیت سے ہمیشہ  پیش پیش رہا ہے۔

(۵) فیض العلوم کے ذریعہ بہار،جھارکھنڈ،اڈیشہ،بنگال،چھتیس گڑھ،ایم پی کے کروڑوں مسلمانوں میں جو جماعتی، تنظیمی،مذہبی اور تبلیغی شعور پیدا ہو ا وہ ایک ناقابل انکار حقیقت بنکر نگاہوں کے سامنے موجود ہے۔

(۶) فیض العلوم کی تحریک سے مشرقی ہند کے لاکھوں مربع میل علاقوں میں بے شمار مساجد ،مدارس،اسکول،قبرستان اور اداروں کی عمارتیں وجود میں آئیں جو آنے والی نسلوں کو اسلام اور اسلام کی روایت کے ساتھ مربوط رکھیں گی۔

(۷) فیض العلوم نے دار الافتاء قائم کرکے فتوی نویسی کا باضابطہ نظم ونسق رکھا  اور پورے ہندوستان سے آنے والے استفتاء کا بروقت جواب دےکر اپنا تشخص اور امتیازی شان برقرار رکھا۔

(۸) فیض العلوم نے حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی تحریک پر ادارۂ شرعیہ فیض العلوم ،فلاحی مرکزقائم کیا تاکہ خلع،طلاق،فسخ اور آپسی تنازعات کا حل شریعت کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔

(۹) فیض العلوم رویت ہلال  کے مسئلہ کی ضرورت کے پیش نظر رویت ہلال کمیٹی کے ذریعہ بڑی ذمہ داری کے ساتھ چاند کا اعلان کرتا ہے۔

(۱۰) فیض العلوم قلمی خدمات بھی انجام دیتا ہے۔ 

 
 

اقتباسات از تاثراتی مکتوبات:

حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ: ’’مدرسہ فیض العلوم کو دیکھ کر مسرت ہوئی،دل خوش ہوگیا،بہت بہترین عمارت ہے‘‘۔

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ:’’ فیض العلوم کا معیار تعلیم قابل تحسین ہے،طلبہ کی سنجیدگی اور سلامت روی ان کی بہترین تربیت کا پتہ دیتی ہے،مستقبل قریب میں فیض العلوم بامِ عروج پر پہونچے گا،بفضلہ تعالی اس وقت بہت اچھی ھالت میں ہے‘‘۔

حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ: ’’ فیض العلوم کی  عمارت و تعمیر و تعلیمی نظام اور دیگر امور انتظامیہ کی روز افزوں ترقی سے طبیعت خوش ہوئی‘‘۔

حضور سید شاہ فدا حسین علیہ الرحمہ:’’اس مدرسہ میں مقامی اور غیر مقامی و یتیم نادار بچوں کی بہت بڑی تعداد پرورش پارہی ہے۔فطرہ ،زکوٰۃ کی رقم سے ان کی امداد کی جائے‘‘۔

حضور تاج الشریعہ زہری میاں علیہ الرحمہ:’’علامہ ارشد القادری ہمہ جہت شخصیت تھے،ہند و بیرون ہند میں خالص سنیوں کے متعدد  ادارے ان کی یاد گار ہیں‘‘۔

حضرت مولانا منصور علی خان قادری صاحب :’’فاتح جمشیدپور،سیاح یورپ،مناظر اہل سنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی خدمات میں روشن ترین کارنامہ دار العلوم اہل سنت فیض العلوم ہے‘‘۔

حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب قبلہ،سربراہ اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ:مدرسہ فیض العلوم کے انتظامی امور اطمینان بخش اور قابل ستائش نظر آئے ،یہ قائد اہل سنت کے اخلاص اور ایثار کانتیجہ ہے‘‘۔

حضور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفی صاحب:’’بحمدہ تعالی ادارہ اپنی تعلیمی و تربیتی روایات پر قائم ہے ، معیار و نظم قابل تقلید و تحسین پایا،حضرت علامہ علیہ الرحمہ کے اخلاص کے نتائج اور روحانی تاثیر قابل دید ہے‘‘۔

حضور فیض العارفین علامہ غلام آسی پیا علیہ الرحمہ:’’میں جہاں کہیں جاتا ہوں وہاں فیض العلوم کی شہرت اور علامہ صاحب کی دینی خدمات کے اثرات روزِ روشن کی طرح جھلکتے ہوئے نظر آتے ہیں‘‘۔

جناب سید نجیب حیدر نوری صاحب:’’تحریر،تقریر،تشکیل،تدریس،تعمیر وتفکر ان تمام کاموں میں حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی ذات یکتائے روزگار تھی‘‘۔

جناب ارشد اقبال اشرفی صاحب:’’ مدرسہ فیض العلوم اچھی پیش رفت کر رہاہے، اللہ تبارک و تعالی سے دعا گو ہوں کہ کوششیں کامیاب ہوں‘‘۔

جناب احمد کمال صباصاحب ،سکریٹری بہار مدرسہ بورڈ:’’ ماشاء اللہ مدرسہ بہت شاندار طریقے سے رواں دواں ہے نظم و نسق بہت ہی اچھا ہے‘‘۔ 

Call Now Button